ایک بیترین یوگا ورزش

اچھی صحت کیلئے ورزش بہت ضروری ہے۔ صحت مند افراد ورزش کرکے اپنی صحت مزید بہتر اور مستحکم کرتے ہیں اور خراب صحت والے بھی سوجھ بوجھ اور اعتدال کے ساتھ مختلف ورزشوں کے ذریعے سے اپنی کھوئی ہوئی صحت بحال کرسکتے ہیں۔


ورزشیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ جدید ورزشوں کیلئے مختلف مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے سے ورزشوں کا زیادہ تر مقصد جسم کی خوشنمائی اور طاقت ہوتی ہے۔ یہ ورزشیں خوشحال ملکوں میں عام ہیں اور وہاں کے لوگوں کیلئے ان کا کرنا آسان بھی ہے۔ ہمارے ہاں تو ٹینس کا کھیل بھی مہنگے کھیلوں میں شمار ہوتا ہے‘ اس لیے صدیوں کی آزمودہ ورزشیں ہی ہمارے لیے مناسب اور مفید ہیں۔ ان میں یوگا کی صدیوں پرانی ورزشیں یوں بھی قابل قدر ہیں کہ اب انہیں سائنس اور تحقیق بھی مفید قرار دے رہی ہے اور ان کے بارے میں کیے جانے والے دعوئوں کی تصدیق ہورہی ہے۔



سرونگ آسن‘ یوگا ورزش ہے۔ اس کے لفظی معنی ”پورے جسم کی ورزش“ کے ہیں۔ چونکہ اس میں کندھوں کے بل جسم کو بلند کیا جاتا ہے‘ اسے کندھوں کی ورزش بھی کہتے ہیں ۔ اس ورزش کا شمار یوگا کی اعلیٰ اور بہترین ورزش کے طور پر ہوتا ہے بلکہ اس کے ماہرین اور تحقیق سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ سرآسن کے مقابلے میں یہ بہت زیادہ مفید ہے۔



ہم سب جانتے ہیں کہ اس زمین پر دو قسم کی برقی لہریں اثر انداز رہتی ہیں‘ مثبت اور منفی۔ مثبت لہریں بالائی سطح پر کارفرما رہتی ہیں اور منفی لہریں زمین پر۔ یہ لہریں یا برقی طاقت نظر نہیں آتی‘ لیکن اس برقی مقناطیسیت کی موجودگی کو تسلیم ضرور کیا جاتا ہے۔ اس کی مقدار ایک میٹر میں 110 سے 150 وولٹ ہوتی ہے۔ ہرجان دار کے جسم کی طرح ہمارے بدن میں بھی برق پاش (الیکٹرولائٹس) کارفرما رہتے ہیں اور حیاتی طبیعیات (بایوفزکس) کے مطابق ہر جسم کے خلیات میں ان لہروں کو اساس یا بنیاد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اس طرح زندگی یا حیات کے تسلسل اور بقا سے ان کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس برقی قوت کی ہرجاندار کے جسم میں بڑی اہمیت ہوتی ہے۔


زمین پر چلنے پھرنے کی صورت میں ہمارے جسم پر یہ دونوں برقی بار اثرانداز ہوتے ہیں۔ زمین سے ہمیں منفی بار ملتا ہے تو اوپر سے آنے والا مثبت بار اوپر سے نیچے کی طرف بہتا یا چلتا رہتا ہے۔ اس عمل کو الٹ دینے سے یعنی سر نیچے اور جسم اوپر کردینے سے ان دونوں میں جو تصادم ہوتا ہے اس سے جسم کے خلیات میں زبردست توانائی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرونگ آسن کو ”آسنوں کا راجہ“ قرار دیا جاتا ہے اور اسے ٹھیک انداز میں کرنے والے توانا اور صحت مند رہتے ہیں۔

:اس سے پہلے کہ

اس سے پہلے کہ آپ یہ ورزش کریں‘ یہ اطمینان کرلیں کہ آپ کسی شدید مرض کا شکار تو نہیں ہیں۔ اس کیلئے بہترین وقت حوائج سے فراغت کے بعد صبح کا ہوتا ہے۔ یوگا کی ورزشوں سے پہلے غسل کرنا بھی مناسب ہوتا ہے اس کے بعد پیٹ بھر پانی پینا چاہیے اور کچھ دیر بعد گہرے سانس لینے کی ورزش (پرانا یام) کرنی چاہیے تاکہ خون میں آکسیجن خوب شامل ہوجائے۔


طریقہ



کسی چادر‘ دری یا قالین پر پیٹھ کے بل (چت) آرام سے لیٹ کر دھیرے دھیرے گہرے سانس لیجئے۔ آپ کے جسم کے کسی حصے میں بھی تنائو نہیں ہونا چاہیے‘ یعنی جسم بالکل ڈھیلا رہنا چاہیے۔ دونوں پیر ملا کر گھٹنوں میں سے موڑے بغیر انہیں دھیرے دھیرے اٹھا کر 90 زاویے پر لے آئیے اور کمر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیجئے۔ کندھے زمین سے لگے ہوں اور ٹھوڑی سینے سے چھورہی ہو۔ دونوں ٹانگوں‘ زانوں میں کسی قسم کا تنائو نہیں ہونا چاہیے۔ اس پوزیشن میں رہتے ہوئے دھیرے دھیرے پانچ چھ مرتبہ گہرے سانس پیٹ کے ذریعے سے لیجئے یعنی پیٹ پچکتا اور پھولتا رہے اب پیر ذرا سامنے لاتے ہوئے دھیرے دھیرے اصل حالت پر آجائیے۔ آپ کا سر فرش پر ٹکا ہونا چاہیے اور توجہ کا مرکز گلے کا اگلا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ اسی میں تھائرائڈ گلینڈ ہوتا ہے۔ اسی طرح گردن کا پچھلا حصہ فرش سے لگا رہنا چاہیے۔ اصل پوزیشن پرآنے کے دوران اور جسم کو اوپر اٹھاتے وقت جھٹکے سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یہ ورزش تھوڑی دیر جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر گہرے سانس لینے کے بعد دوبارہ بھی کی جاسکتی ہے۔ مشق ہوجانے کے بعد اس کا وقت ایک سے بیس منٹ تک کیا جاسکتا ہے۔ تھکن اور اضمحلال دور کرنے کیلئے جب بھی ضرورت ہو یہ کی جاسکتی ہے بشرط یہ کہ کھانا کھائے ہوئے تین گھنٹے ہوگئے ہوں۔



فائدے

اس ورزش سے جسم کے تمام نظام ہم آہنگ رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے انسان خوش اور پُرامنگ محسوس کرتا ہے۔ یوں تو اس کی مشق سے کئی امراض دور ہوتے ہیں لیکن خاص طور پر نزلے کی پرانی شکایت اور ناک کی تکالیف کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ اس سے بلڈپریشر‘ چڑچڑے پن اور خفا قسم کے افراد کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ اعصابی نظام کی شکست و ریخت (نروس بریک ڈائون) اور بے خوابی کی تکالیف دورہوجاتی ہیں۔


چونکہ اس میں جسم کی کشش ثقل میں تبدیلی آجاتی ہے‘ ہضم کے آلات و اعضاءپر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آنتوں کی نقل و حرکت بڑھ جاتی ہے اور قبض دور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مثانے اور مردوں میں اس کے غدود اور خواتین میں ان کے رحم پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اسی طرح گردوں کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ مثانے کے غدود پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بالخصوص نوجوانوں کی مخصوص تکالیف یعنی رطوبتوں کے غیرضروری اخراج کا سلسلہ رک جاتا ہے۔


خون کے چہرے اور دماغ کے طرف گردش سے آنکھ‘ ناک‘ کان کو آکسیجن ملا خون ملتا ہے جس سے چہرے کی رونق بڑھ جاتی ہے‘ جھریاں غائب ہوجاتی ہیں‘ تھائرائڈ گلینڈ کی کارکردگی بہتر ہونے سے جسم میں چربی کم ہونے لگتی ہے۔


ورزش کے دوران سانس لیتے رہنے سے پھیپھڑوں میں جمع بلغم اکھڑنے لگتا ہے چنانچہ اس سے سانس کے مریضوں کو بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ورزش کے بعد بلغم کے اخراج کو اچھی علامت سمجھنا چاہیے اور ضروری ہو تو تھوڑا شہد دن میں چاٹ لینا چاہیے۔ اسی طرح ٹانسلز اور گلے کی دیگر تکالیف بھی دور ہوجاتی ہیں۔


جسم میں توانائی کی رو کے دوڑنے سے رفتہ رفتہ تمام جنسی اعضاءاور غدود بھی بیدار ہوکر جنسی توانائی میں اضافہ 
کردیتے ہیں۔خوداعتمادی‘ جوش اور مضبوط آسودہ اعصاب اور توانا دماغ سے پوری شخصیت میں تبدیلی آجاتی ہے۔


Comments

Popular Posts