اپنا علاج خود کیجیے (علم نفسیات پر ایک عمدہ تحریر)


انسانی زندگی کا مطالعہ، کائنات کے مطالعے اور مشاہدے سے کہیں زیادہ مشکل اور دقت طلب ہے۔ کائنات کے مطالعے، دیکھ بھال، جانچ پڑتال اور چھان بین کے سلسلے میں ایک علم نہیں تمام علوم، ایک فن نہیں تمام فنون، ایک سائنس نہیں تمام سائنس ہماری امداد کے لیے حاضر ہیں لیکن جب کسی انسانی ذہن کا مطالعہ شروع کیا جاتا ہے تو فقط فراست و بصیرت اور حکمت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔
کھلی ہوئی جسمانی بیماریوں کے علاج میں بلاشبہ آپ ماہر فن معالج کے محتاج ہیں لیکن چھپی ہوئی نفسیاتی بیماریوں کا علاج کوئی معالج نہیں کرسکتا، ہم خود کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ علاج اتنا طویل، صبر آزما، تھکا دینے والا اور اکتا دینے والا ہوتا ہے کہ مریض چند ہی روز میں ’’خود علاجی‘‘ کے عمل سے بیزار ہوجاتا ہے۔ انسان پوری کائنات کا مقابلہ کرسکتا ہے، وہ عالم موجود کی ہر بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے لیکن خود اپنا مقابلہ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ درحقیقت ہم آپ اپنا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔
اکثر قارئین جو اپنے مسائل کے لیے رابطہ کرتے ہیں انھیں تنفس نور کی مشق اور مراقبہ نور تجویز کرتا ہوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سانس اور خودکار اعصابی نظام کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ یوں تو ہمارے جسم میں مختلف نظام عمل کارفرما ہیں، مثلاً نظام دوران خون، نظام ہضم، نظام اخراج وغیرہ، لیکن بات کو سیدھے سادے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے حیاتیاتی اعمال دو قسم کے اعصابی نظاموں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں، اعصاب کا ایک نظام وہ ہے جو ہمارے ارادے کے تحت ہے، دوسرا ہمارے ارادے کے تحت نہیں ہے۔
ارادی اعصابی نظام کے ذریعے جسم کی وہ تمام حرکات عمل میں آتی ہیں جو ہم شعوری طور پر بجا لاتے ہیں، مثلاً یہ مضمون ارادی اعصابی نظام کی مدد سے لکھ رہا ہوں، علم چلانا، کاغذ موڑنا، لفظوں پر نقطے لگانا، عبارت کی سطور مرتب کرنا، سب ارادی اعصابی نظام کی کارگزاری ہے لیکن اس مضمون کی تحریر کے دوران میں نے کتنی بار پلکیں جھپکائیں، سانس لیا اور غیر شعوری طور پر انداز نشست میں تبدیلیاں پیدا کیں، کبھی شعوری ارادے کے بغیر ادھر کو کھسک گیا، کبھی ادھر کو کھسک گیا، کبھی پہلو بدل لیا، یہ سب خودکار اعصابی نظام کی کارگزاری ہے، اس کی کارکردگی کا ہمیں پتا بھی نہیں چلتا، مثلاً سانس لینے کا عمل ہے۔
اگر سانس لینے کا عمل ارادی اعصابی نظام کے تحت ہوتا تو ہر بار سانس کھینچنے اور نکالنے کے لیے ازسرنو ارادہ کرنا پڑتا کہ سانس لیں اور خارج کریں۔ ظاہر ہے کہ پوری زندگی اسی مصروفیت میں صرف ہوجاتی اور ہم کوئی دوسرا کام کرنے کے قابل ہی نہ رہتے۔ لہٰذا زندگی نے سانس لینے کے پورے عمل کو غیر ارادی اعصابی نظام کی تحویل میں دے دیا ہے کہ ہم اپنی کوشش، ارادے اور علم کے بغیر زندہ رہنے کے اس عمل کو جاری رکھ سکیں۔
خودکار اعصابی نظام کے تمام اعمال و حرکات (سانس لینا، غذا ہضم کرنا، قلب کا دھڑکنا، رگوں میں خون کا دوران وغیرہ وغیرہ) خودکار ہوتے ہیں، ہمارا قلب ہمارے شعوری ارادے کے تحت نہیں دھڑکتا، ہم ہر لمحہ جان بوجھ کر سانس نہیں لیتے، اسی طرح اور ہزاروں جسمانی عمل ہیں جو خودبخود وجود میں آجاتے ہیں۔ انسان کا جذباتی عمل بھی ارادے کے تحت نہیں ہے، یہ عمل بھی غیر ارادی طور پر ظہور میں آتا ہے۔ خودکار اعصابی نظام کا سب سے زیادہ نمایاں مظہر سانس کا عمل ہے۔ سانس کا جذبات سے گہرا تعلق ہے۔ ہر جذباتی کیفیت کی تبدیلی کے ساتھ سانس کی رفتار اور کیفیت بدل جاتی ہے، غصے میں سانس کا اتار چڑھاؤ کچھ اور ہوتا ہے اور خوف میں کچھ اور۔ مختصر یہ کہ ہر جذبے کے ساتھ نظام تنفس کی کیفیت بدل جاتی ہے۔
جو لوگ شدید جذباتی کیفیت کا شکار ہوں انھیں خود علاجی کے لیے اپنے جذباتی نظام کو تبدیل کرنا ازحد ضروری ہے۔ جب تک جذباتی کیفیت کو بدلا نہ جائے گا، ممکن نہیں کہ شخصیت کے دیگر عارضے رفع ہوسکیں اور آپ صحت مند زندگی بسر کرسکیں۔ جذباتی کیفیت کو بدلنے کا واحد سائنسی طریقہ ہے کہ سانس کے غیر ارادی عمل کو ارادے کے تحت لایا جاسکے۔ جو شخص جذبات پر قابو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے سانس پر قابو حاصل کرنا چاہیے۔
مشق تنفس نور میں سانس کھینچنے، روکنے اور نکالنے کے ساتھ نور کا تصور کیا جاتا ہے، جس کا طریقہ کار ہم ان ہی کالموں میں پیش کرچکے ہیں۔ ابتدا میں آپ نور کا تصور قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے، نہ سہی لیکن ابتدا میں سادہ طور پر سانس کے پانچ چکر کرلینے چاہئیں، یہ کافی ہے، چاہے نور کا تصور ہو یا نہ ہو۔ جہاں تک مراقبہ نور کا تعلق ہے تو خیال کی تربیت کے لیے مراقبے کی مشق ضروری ہے، ابتدائی چھ مہینے میں تصور پختہ ہوگا۔ یقین رکھیں بیان کردہ مشقیں جو ہم نے تجویز کی ہیں وہ انجام کار آپ کو اندر اور باہر سے بدل دیں گی۔
ان مشقوں کے ساتھ آپ کو خودعلاجی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ خودعلاجی یہ کہ بچپن سے اب تک اپنی جذباتی سرگزشت پر نظر ڈالیں، جس کا طریقہ کار بھی پیش کیا جا چکا ہے، جس عارضے یا عادت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس کی ہسٹری پر نظر ڈالیں، یقیناً آپ اپنی شخصیت میں پایا جانے والا سقم تلاش کرلیں گے۔ اس عبارت کی ابتدا میں عرض کیا گیا تھا کہ ’’انسانی زندگی کا مطالعہ، کائنات کے مطالعے اور مشاہدے سے کہیں زیادہ مشکل اور دقت طلب ہے‘‘۔ آپ کو بھی اس فقرے کی روشنی میں خود علاجی اور خود تحلیلی کا سفر شروع کرنا 
چاہیے۔
شایان تمثیل

Comments

Post a Comment

Popular Posts